گلاب موتیے کی اوڑھنی میں چُھپ گیا ہے کیا؟
یہ ماہ تاب چاندنی کو اوڑھ سوگیا ہے کیا؟
یہ میرا آفتاب بدلیوں میں گِھر گیا ہے کیا؟
ابھی ہُمک رہا تھا میری گود میں، ہوا ہے کیا؟
بموں کی گھن گرج میں اس کو نیند کیسے آگئی؟
بلک رہا تھا بھوک سے خموشی کیسے چھاگئی؟
جگارہی ہوں نیند سے مگر یہ جاگتا نہیں
مرے خدایا یہ کہیں ....؟ نہیں مرے خدا نہیں؟
ابھی تو اس کے منہ سے ماں کا لفظ بھی نہیں سُنا
ابھی تو میں نے اس کا پہلا سال بھی نہیں گَِنا
ابھی تو اس کی نرمیاں رچی ہیں میری گود میں
ابھی تو اس کی گرمیاں بسی ہیں میری گود میں
کھلونا کوئی اس کے واسطے میں لانہیں سکی
میں سردیوں کی دھوپ میں اِسے کِھلا نہیں سکی
”جسے چمک سمجھ کے تم ہنسے بہت ہی خوش ہوئے
وہ بم ہے میری جان بم“ اسے بتا نہیں سکی
لو سوگیا، کہانی میں کوئی سُنا نہیں سکی