غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
ہنسا ہنسا کے شب وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سر مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا
سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار کیا
اگر یہ سچ ہے تو بے شبہ ہم پہ وار کیا
نہ آئے راہ پہ وہ عجز بے شمار کیا
شب وصال بھی میں نے تو انتظار کیا
تجھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا
یہ کیا کیا کہ جہاں کو امیدوار کیا
یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مآل اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا
کہاں کا صبر کہ دم پر ہے بن گئی ظالم
بہ تنگ آئے تو حال دل آشکار کیا
تڑپ پھر اے دل ناداں کہ غیر کہتے ہیں
اخیر کچھ نہ بنی صبر اختیار کیا
ملے جو یار کی شوخی سے اس کی بے چینی
تمام رات دل مضطرب کو پیار کیا
بھلا بھلا کے جتایا ہے ان کو راز نہاں
چھپا چھپا کے محبت کو آشکار کیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا