غفلت کا جو ہے پردہ اک دن تو وہ اٹھے گا
کھل جائے گی حقیقت کچھ بھید نہ رہے گا
اپنے کئے کا سب کو بھگتان ہے بھگتنا
جو ہوگا کھوٹا سکہ بالکل نہ وہ چلے گا
انصاف کا ہی ہوگا اس دن تو بول بالا
جیسا کیا ہے جس نے ویسا صلہ ملے گا
ہر ایک کے دلوں میں رچ بس گئی ہے دنیا
افسوس کا سبب تو رُجْحان یہ بنے گا
پہچان ہی ادب سے انسان کی تو ہوتی
جو بے ادب رہے گا وہ نہ پنپ سکے گا
ڈھونڈے گا سکھ جہاں میں جس کے لیے بھی کوئی
برسے گا سکھ اسی پر نہ وہ سمجھ سکے گا
انسان تو اثر وہ بالکل ہی تو بھلا ہے
جس سے کبھی کسی کو نہ دکھ کوئی ملے گا