غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
Poet: Meer Mehdi Majrooh By: nasir, khi
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا
مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا
گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا
کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا
چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا
انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا
مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا
ابھی کھینچ کر تم کو لائیں گے ہم
ذرا رہ تو اے دشت آوارگی
ترا خوب خاکہ اڑائیں گے ہم
فسانہ تری زلف شب رنگ کا
بڑھے گا جہاں تک بڑھائیں گے ہم
وہی درد فرقت وہی انتظار
بھلا مر کے کیا چین پائیں گے ہم
وہ گمراہ غیروں کے ہم راہ ہے
اسے راہ پر کیوں کہ لائیں گے ہم
قفس سے ہوا اذن پرواز کب
یہ خواہش ہی دل سے اڑائیں گے ہم
طلسم محبت ہے عاشق کا حال
انہیں بھی یہ قصہ سنائیں گے ہم
وہ نخوت سے ہیں آسماں سے پرے
کہاں سے انہیں ڈھونڈ لائیں گے ہم
نہ کر آہ یہ شورش افزائیاں
تجھے بھی کبھی آزمائیں گے ہم
نہ ٹوٹے گا سر رشتۂ اختلاط
وہ کھینچیں گے جتنا بڑھائیں گے ہم
یہ مانا کہ ہو رشک حور و پری
مگر آدمیت سکھائیں گے ہم
حذر تیر مژگاں کی بوچھاڑ سے
یہ اک دل کہاں تک بچائیں گے ہم
ہمیں زہر و خنجر کی کیوں ہے تلاش
شب غم میں کیا مر نہ جائیں گے ہم
نہ نکلا کوئی ڈھب تو بن کر غبار
نظر میں تمہاری سمائیں گے ہم
کہاں گھر میں مفلس کے فرش و فروش
وہ آئے تو آنکھیں بچھائیں گے ہم
ترے قد سے کی سرو نے ہم سری
اسے آج سیدھا بنائیں گے ہم
نہیں غسل میت کی جا قتل گاہ
مگر خاک و خوں میں نہائیں گے ہم
رہ عشق سے نابلد ہے ابھی
خضر کو یہ رستہ بتائیں گے ہم
ہوا وصل بھی تو مزا کون سا
وہ روٹھیں گے ہر دم منائیں گے ہم
شب و روز دل کو کریدیں نہ کیوں
یہیں سے پتا اس کا پائیں گے ہم
عبث ہے یہ مجروحؔ طول امل
بکھیڑے یہ سب چھوڑ جائیں گے ہم
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
اک عمر کے دکھ پائے سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر ہم کو نہ جگا جانا
مانگوں تو سہی بوسہ پر کیا ہے علاج اس کا
یاں ہونٹ کا ہل جانا واں بات کا پا جانا
گو عمر بسر اس کی تحقیق میں کی تو بھی
ماہیت اصلی کو اپنی نہ ذرا جانا
کیا یار کی بد خوئی کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا
کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
اک شب نہ اسے لائے کچھ رنگ نہ دکھلائے
اک شور قیامت ہی نالوں نے اٹھا جانا
چلمن کا الٹ جانا ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا
ہے حق بطرف اس کے چاہے سو ستم کر لے
اس نے دل عاشق کو مجبور وفا جانا
انجام ہوا اپنا آغاز محبت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا
مجروحؔ ہوئے مائل کس آفت دوراں پر
اے حضرت من تم نے دل بھی نہ لگا جانا






