فبای الا ربکما تکذبان
جس خالق نے ہم کو بخشے نعمتوں کے گلدان
پردہ خاک سے باہر آئے کتنے عظیم انسان
اس کا شکر ہے واجب ہم پر ہر لمحہ ہر آن
قلب و نظر میں اس کی تجلی سمجھے کل جہان
فبای الا ربکما تکذبان
خالق اکبر سلجھائے گا زیست کا یہ بحران
مت کر اے غافل تو اس کی نعمتوں کا کفران
بے نیاز ہے رازق جگ کا اس پر رہے دھیان
جاں لیوا صدمات میں ہے زیست کا نگہبا ن
فبای الا ربکما تکذبان
محشر کے دن اس کے کرم سے ہوگی ہر مشکل آسان
اس کی بخشش دیکھ کے آئے گی سب کی جان میں جان
عاصیوں کو ہے اس کا سہا را بخشش کا سب سامان
پڑھو درود نبی سوہنے پر یوں حاصل ہو وجدان
فبای الا ربکما تکذبان
یہ دنیا ہے ایک سرائے ہم سب ہیں مہمان
سانس کی ڈوری کب ٹوٹے اس نہیں گماں
دو گز زمیں اور کفن کا ٹکڑا ملے گا یہ سب دان
سمجھ لے اپنی ساری بپتا اے غافل انجان
فبای الا ربکما تکذبان
خالق اکبر تیرے دم سے پورے ہوں ارمان
تیرے کرم سے مفلس بھی بن جاتے ہیں دھنوان
رزق کے دروازے کھولے ہیں تو نے بے پایان
کیسے بیاں ہو حمد تیری اور لا محدود احسان
فبای الا ربکما تکذبان
تیرے قہر و غضب کے آقا سخت بڑے فرمان
جتنے ہیں مغضوب تیرے ہیں عبرت کا سامان
سیل زماں میں غرق ہوئے شداد اور ہامان
آخر رزق خاک ہوئے دارا اور ہلاکو خان