فتنوں سے پُر زمانہ آ گیا ہے
دیکھو تو حشر ہر سو ہی بپا ہے
ملتا ہے کوئی غَرض سے ہی کسی سے
کوئی بھی بے غرض کبھی ملا ہے
الو تو اپنا جب سیدھا کرنا ہو
ملنا تو اب اسی کے لئے روا ہے
کوئی بھی نہ زیاں کسی کا بھی ہو
ہم نے تو درس ایسا ہی دیا ہے
آشیاں مٹ گیا بھی تو کیا غم
عزم اپنا نہ تو کبھی مٹا ہے
جو زباں پر ہو وہ ہی دل میں رہے
ہم نے آہنگ زبان و دل کیا ہے
جو حدودٍ فلک سے آگے بڑھا
اس کی ہی جستجو سے گٌل کِھلا ہے
مل گیا اثر کو کوئی فرزانہ
پروانے کی روش پر وہ چلا ہے