اُٹھا وہ جبر تاہم جبر کی تمثیل باقی ہے
حقیقت میں ہمارے دیس کی تشکیل باقی ہے
مُصور نے،تصور میں،جو اک تصویر دیکھی تھی
ابھی تک اُس حسیں تصویر کی تکمیل باقی ہے
حقیقت میں نہیں آزاد ہم،آزاد ہو کر بھی
ہماری فکر پر اغیار کی تحویل باقی ہے
قدم رکھتا ہُوں تو اِک درد سا اُٹھتا ہے پاؤں میں
فرنگی فکر کی تلوے میں شاید کِیل باقی ہے
جہاں عصمت نہ لُٹتی ہو،جہاں ڈاکے نہ پڑتے ہوں
!کہیں اِس دیس میں ایسی کوئی تحصیل باقی ہے
مِرے اشعار ابھی سے چُبھ رہے ہیں حُکمرانوں کو
اُنہیں کہہ دو!کہ یہ تمہید تھی تفصیل باقی ہے
کوئی ہابیل کی خاطر عدالت میں نہیں جاتا
ہمارے شہر میں زندہ تبھی قابیل باقی ہے
مِرے قُرآن کی زیروزبر تک بھی نہیں بدلی
نہ ہی تورات ہے اصلی نہ اصل انجیل باقی ہے
قیامت کے تمام آثار ظاہر ہو چُکے لیکن
نہایت ہونے کو بس صُورِاسرفیل باقی ہے
خُدا جب چاہے قوموں کی تنابیں کھینچ سکتاہے
وہ کھینچے گا یقیناً بس ذرا سی ڈِھیل باقی ہے
یقیناً وَرْد مِٹ جائینگی یہ تاریکیاں آخر
کہ طُوفانوں میں روشن نوجواں قِندیل باقی ہے