فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے
گر باغ گدائے مے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے
ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے
اردی جو نہ ہو تو دے نہیں ہے
کیوں رد قدح کرے ہے زاہد
مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبؔ
آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے