یہ نُکڑ پہ جو بند ہے چائے خانہ
نشاں ہے محلے کا برسوں پُرانا
یہ ہوٹل سلامت رہے گا، کھلے گا
کُھلے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
بنارس پہ جو قافلہ رُک گیا ہے
جو اس چوک پر کب سے خائف کھڑا ہے
یقیناً وہ بے خوف ہوکر چلے گا
چلے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
سڑک کے کنارے وہ موچی کی پیٹی
کئی روز سے جس پہ تالا پڑا ہے
کسی صبح موچی یہیں پر ملے گا
ملے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ ارضِ اورنگی کا ننھا سا بچہ
جو گولی کی تڑتڑ سے ڈر سا گیا ہے
وہ گلیوں میں دوڑے گا، کھیلے ہنسے گا
ہنسے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ رکشا جو ڈرکے نہیں چل رہا ہے
کہیں کچے گھر پہ جو سہما کھڑا ہے
وہ لانڈھی کی گلیوں میں پِھر سے اُڑے گا
اُڑے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ انچولی، گلشن کے خوش باش لڑکے
الآصف پہ کھانے نہیں آرہے جو
الآصف پہ پھر ان کا میلہ لگے گا
لگے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
وہ مزدا، وہ کنڈکٹروں کی صدائیں
جو اردو میں پشتو کے تیور جگائیں
یہ لہجہ سماعت میں گونجا کرے گا
کرے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا
پَرے شہر سے جو دکاں پان کی ہے
کئی روز سے جو نہیں کُھل سکی ہے
شٹر اس کا سورج کو لے کر اٹھے گا
اٹھے گا
کراچی تُو زندہ رہے گا