ہوں رول ماڈل دوستو، سب سے امیر ہوں
فکرِ معاش کیوں ہو؟ میں عادی فقیر ہوں
ہر اِک سے مانگتا ہوں، ہوتا نہیں خجل
مُجھ سا کہاں سے لاؤگے یارو پروفیشنل
ہر راہگیر کیلئے میں دامن گیر ہوں
ہوں طاق اداکاری میں، بچن کا پیر ہوں
رمضان کی خوشی مُجھے سب سے سِوا تو ہے
دُگنی تِگنی بھیک، میرا آسرا تو ہے
سگنل پہ اِس ادا سے لگاتا ہوں میں صدا
گویا کہ میرے پائے کا کوئی نہیں گَدا
جنت کو بیچتا ہوں سرِ عام دوستو
ہر ایک جانتا ہے میرا نام دوستو
رمضان میں تو دوستو، دُگنی کمائی ہے
میرے لئے رمضان میں ہی عید آئی ہے
بچوں کو میں نے دی ہے ٹریننگ بہت جُدا
بازار میں لگاتے ہیں، کیا خُوب وہ صدا
کہتے ہیں “دے خُدا کیلئے، ہم یتیم ہیں
دیتے ہیں جو یُتامیٰ کو، بندے عظیم ہیں“
بیوی میری الگ سے بہت بھیک پاتی ہے
جب خُود کو نیک بخت کبھی بیوہ بتاتی ہے
الغرض، بھیک مانگنا، اِک آرٹ، خاص ہے
گھر کا ہر ایک فرد کیا پبلک شناس ہے
پہلے کسی بھی شخص کی نفسیات دیکھئے
پھر بعد میں ملنے والی خیرات دیکھئے
پنج وقتہ سُوئے مسجد میرا لازمی گُزر
ہاں بس ذرا نماز سے کرتا ہوں میں حذر
جب اپنے گندے حُلئے میں جاتا ہوں میں نزدیک
گھبرا کے سب نمازی مُجھے دیتے ہیں پھر بھیک
لوگوں کو صدقہ، خیرات کی رغبت دِلاتا ہوں
ترغیبِ نیکی پہ یونہی ثواب پاتا ہوں
گو پُورا سال رہتا ہے، میرا یہی بس کام
رمضان کا میں کرتا ہوں کُچھ خاص احترام
جتنے میرے عزیز کہ بستے ہیں دُور دُور
رمضان میں بُلاتا ہوں، اُن سب کو میں حضور
میرے وسیلے سے اُنہیں ملتا ہے روزگار
جُملہ بھکاریوں کا ہوں میں ہی تو ٹھیکیدار
سگنل پہ، پلیٹ فارم پہ، فُٹ پاتھ پہ جناب
کس جا کہ ہم فقیر نہیں ہوتے دستیاب؟
دامن کو تھام لیتے ہیں، پھر چھوڑتے نہیں
گو سگِ راہ کی طرح بھنبھوڑتے نہیں
شاپنگ کوئی کرے تو ہمیں پائے گا وہیں
کس جا اور کس گلی میں فُقراء بھلا نہیں
صدقہ کی مَد میں جتنی ہیں آیہ قُرآن میں
رٹّو طوطے کی طرح، جاری زبان میں
مانا اسی قُرآن میں کسبِ حلال ہے
جائے میری نگاہ اُدھر، امرِ مُحال ہے
دستِ سوال کی ہے مُمانعت بھی جابجا
مُجھ کو مگر ایسے فرامیں سے واسطہ
دِن رات مانگنے میں ہوں مصرُوف اس طرح
تیسری دُنیا کے ہیں حکمران جس طرح
مولا میری کمائی میں برکت ہی دے سدا
یونہی گلی گلی میں لگاتا رہوں صدا