لبوں نے آپ ہی اک گیت گنگنایا ہے
فلک سے چاند اتر کے زمیں پہ آیاہے
دمک رہے ہین افق پہ کئ ستارے جو
پھر انجمن میں کوئ دل کی مسکرایاہے
ہوا کے دوش پہ ہر شے ہے جھومتی دیکھو
سرور و کیف تو موسم نے بھی لٹایا ہے
وہ جسکے آنے سے گلشن میں آگئ رونق
مرے خیال و نظر پر اسی کی چھایا ہے
شب فراق میں نیندیں چرا کے آنکھوںسے
وفا کا دیپ جلایا، کبھی بجھایا ہے
میں عکس تیراہوں اورتو ہے آئنہ میرا
تجھے خدا نے مرے ہی لیئے بنایا ہے
حیاء کا رنگ گلابی چڑھاکےگالوںپہ
وہ میری روح میں کچھ اسطرح سمایاہے
کہ خون بنکے مری رگ میںدوڑتاہےوہ
غزل غزل نہ رہی بس اسی کاسایاہے