چند عامیانہ باتوں سے فنکار نہ بنیں
شاعر بنیں یوں بھانڈ تو سرکار نہ بنیں
میں خود کو شاعری کا سمجھتا نہیں گرو
لیکن جناب بات کی ہے آپ نے شروع
دل میں تو میرے جھانکیے چاہت ہے کسقدر
میری نظر میں آپ کی عزت ہے کسقدر
بس عرض ہے زبان کو تھوڑا سنبھالیے
غصہ نہ شاعروں پہ مری جاں نکالیے
تنقید میری شاعری پہ کیجیے جناب
مہکیں گے میرے شعروں کے یوں اور بھی گلاب
تنقید لازمی بھی ہے لوگوں کی اے حضور
اصلاح یوں ہی ہوتی ہے شعروں کی اے حضور
لوگوں سے داد پا کے لہکنے لگے ہیں آپ
بس تھوڑی سی ہی پی کے بہکنے لگے ہیں آپ
شہرت کا کیا ہے یہ تو نصیبوں کی بات ہے
ہو جس میں فن چھپا وہی فن کی سوغات ہے
صرف حسن و عشق کا ہی بیاں شاعری نہیں
لوگوں کے درد و غم پہ نظر آپ کی نہیں
ہو شاعری تو “ میر “ سی انداز و ناز کی
سر میں بجے تو بھاتی ہے آواز ساز کی
صرف قافیوں کو جوڑنا ہی شاعری نہیں
تک بندیوں کی آج کوئی بھی کمی نہیں
یہ دیکھیے تو پورا وزن ہے بھی کہ نہیں
کچھ جانیے حضور سخن ہے بھی کہ نہیں
غالب و میر و فیض کو پڑھتے رہے ہیں آپ
پھر بھی بے معنی شعر ہی گھڑتے رہے ہیں آپ
لوگوں کا ذوق علم و ادب نہ بگاریے
اور شاعری کا پیرہن یوں نہ ادھیڑیے
گر شاعری کا شوق ہے استاد ڈھونڈیے
یا ٹوٹا ہوا اک دل ناشاد ڈھونڈیے
شعلہ سا بن کے آپ پہ لپکوں تو میں جناب
لیکن نہیں کہ پیش نظر ہیں مرے آداب
ہوں نرم پھول مجھ میں چبھن بھی ہے خار کی
گر سو سنار کی تو فقط اک لوہار کی
اب اور محترم کا میں لوں کسقدر حساب ؟
فن کے گرو کو کافی ہے اتنا مرا جواب
چھوڑو اے داست ! دوستی کا ہاتھ بڑھائیں
پہلے ہی نفرتیں ہیں بہت اس جہان میں
نوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کل رات بھری بزم میں ایک شاعر نما شخص کے طنزیہ جملوں کے جواب میں یہ نظم تحریر کی گئی ۔اسے اپنے پیارے دوستوں کی نذر کر رہا ہوں۔