جب مودّت خیز فطرت اپنی دِکهلائ فرات
فاطمہ کے مہر کی فہرست میں آئ فرات
کربلا ہو کر گزرنے کی اِجازت رب نے دی
جب گواہِ پیاس بنّے کی قسم کهائ فرات
(مطلعِ ثانی)
جب قریبِ شیر جانے سے بهی تهرّائ فرات
اسپِ عباسِ جری کے پاوءں سہلائ فرات
بہرِ اِسماعیل زمزم بہرِ موسی نیل اور
رب نے سرور کے لےء ہی خلق فرمائ فرات
چِهدگئ مشکِ سکینہ ہاته غازی کے کٹے
ظلم یہ دیکها جو ساحل پر تو شرمائ فرات
شاہ گر نہ روکتے آجاتی خیموں کے قریب
آب اصغر کو پِلاتی بنکے خود دائ فرات
حُکمِ شبیری کی زنجیروں میں جکڑی رہ گئ
ورنہ غم میں بَن ہی جاتی سوکه کر کائ فرات
لے کے خالق سے اِجازت چُومنے غازی کے پاوءں
سہمی سہمی سوچتی دانائ دِکهلائ فرات
ریت کی چادر میں چَهن کر دُهوپ سے کرکے وضو
قبرِ عباسِ علی تک خود کو پہنچائ فرات
فاطمی رومال میں محفوظ ہونے کے لیےء
ہم عزاداروں کی آنکهوں میں اُتر آئ فرات
سجدے کرتی جا رہی هے پاوءں پر عباس کے
اِسلیےء صابر کے دل میں بهی جگہ پائ فرات