ظلمات کا سایہ سر شام بہت ہے
فکر حکام کی تعمیر کا کام بہت ہے
کیسے ہو گا امن اس ریاست میں
حفاظ قرآں کا قتل عام بہت ہے
کس قدر خود غرض ہیں ہمارے رہبر
ان کے سینوں میں آتش انتقام بہت ہے
کیوں نہ اٹھیں،شعلے اس چمن سے
بارود کا جہاں اہتمام بہت ہے
پتھر سے سخت دل ہیں ان کے
کھیل وحشت کاسر عام بہت ہے
ہر گھر ہے فاقہ کشی کی نظر
خوشحالی ابھی گمنام بہت ہے
تہزیب نو کا یہ نتیجہ ہے سامنے
بے حجابئ خواتین کا نام بہت ہے
سستے داموں جانیں بکتیں ہیں سحر
پیشہء ظلم و ستم یہاں عام بہت ہے