او غفلت کی نیند میں سونے والے ذرا ہوش میں آ
تیرا بیش قیمت سرمایہ لٹ رہاہے ذرا ہوش میں آ
زندگی ملی ہم کو یہ خدا کی نعمت ہے
بندگی میں یہ گزرے اس میں اپنی رِفْعَت ہے
نہ کبھی تو غفلت میں زندگی یہ ڈوبی ہو
موت کی خبر کس کو وہ تو ناگَہانی ہو
مال و زر یہ دنیا کا چھوڑ کر ہی جانا ہے
خوب سوچ لے آخر خالی ہاتھ جانا ہے
جن کے تَذْکِرے سن کر لوگ چونک جاتے تھے
جن کے خوف سے تو ایوان تھر تھراتے تھے
اس سرائے فانی کو دائمی وہ سمجھے تھے
اپنی عمر فانی کو سرمدی وہ سمجھے تھے
کَرّ و فَر کی چاہت نے نہ کہیں کا بھی چھوڑا
اپنی شان و شوکت کے بس نشے میں دُھت رکھا
ٹھاٹ باٹ سب ان کا خاک میں ملا ڈالا
موت کے طمانچے نے کیا سے کیا بنا ڈالا
ایک تو سکندر تھا جس کی یہ تمنا تھی
ہر جگہ تو دنیا میں حُکْم رانی ہو اس کی
نہ ہلاکو پورس ہے نہ فرعون سا ظالِم
موت نے دبوچا جب نہ کوئی بچا سالِم
نامور تھا جو پہلے مٹ گیا نشاں اس کا
مال و زر پہ تھا تکیہ سب گنوا دیا اپنا
آرزو کسی کی بھی نہ ہوئی کبھی پوری
ہر کسی کی حسرت بس رہ گئی ادھوری ہی
نہ کسی کا دنیا نے ساتھ ہی نبھایا ہے
جب گیا ہے دنیا سے ہاتھ کچھ نہ آیا ہے
زندگی تو یہ اپنی بلبلا ہے پانی کا
کب چراغ بجھ جائے کچھ پتہ نہیں اس کا
ہم نے خوب دیکھا ہے زندگی یہ دھوکہ ہے
جو نظر بھی آتا ہے وہ سَراب جیسا ہے
رَنگ و بُو جہاں کا تو دیکھ کر یہ لگتا ہے
بس مُلَمَّع سازی کا ہی گمان ہوتا ہے
اب تو فکر عقبی میں زندگی کھپانا ہے
جو روش ہے غفلت کی باز اس سے آنا ہے
ہر گھڑی نَدامَت کے آنسو ہی بہانا ہے
زندگی کو اب اپنی قیمتی بنانا ہے