سنتے نہیں تھانے میں کسی کی وہ گزارش
چلتی ہے فقط قائد اعظم کی سفارش
گر جیب میں کاغذ کا بڑا نوٹ نہ ہو تو
چھترول کی ہوتی ہے بڑی زور کی بارش
گنجا کوئی دیکھوں جو چمکتے ہوئے سر کا
ہاتھوں میں مچل اٹھتی ہے میرے بڑی خارش
اطبائے قدیمی کی دواؤں کا ہے شُہرہ
ملتی ہے مریضوں کو یہاں انکی جوارش
پڑھ کر میرا مکتوب حلق پھاڑ کے بولا
پوری نہیں ہوگی یہ کبھی تیری خواہش
بھائی نے گلا کاٹا ہے بھائی کا یہاں پر
پوری ہوئی دشمن کی وہ تقسیم کی سازش
جس نے مجھے دھوکے سے پھنسایا ہے یہاں پر
کہتا ہے وہ مجھ پر ہے بڑی اسکی نوازش
پہلے ہی جو کنجوس ہو تنگ قلب و نظر ہو
کیونکر وہ کریگا یہاں اشہر کی ستائش