قارونوں سے اس قوم کو بچا میرے مالک
چابیوں کے بوجھ تلے لوگ مر رہے ہیں
بھوک ہے اور حسرت آنکھوں میں
چولہے ٹھنڈے ہیں پر دل جل رہے ہیں
غریبوں کے نوالے چھین کے یہ اشرافیہ
جمہوریت کی آڑ میں ظلم کر رہے ہیں
انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے
سسکیوں سے در و دیوار بھی ڈر رہے ہیں
عصر_ نو_ رات ہے کرڑوں پر امید چہرے
اک دھندلا سا ستارہ تک رہے ہیں
دھرتی ماں کو گالی دے کر دندنا رہے ہیں
ایوانوں میں سازشوں کے دور چل رہے ہیں
کوئی ایوبی کوئی ٹیپو کوئی سپاہ سالار نہیں
سینے پھٹ جائیں گے طوفان اٹھ رہے ہیں
دیکھنا کہیں یہ بھی شام نہ ہو جائے
صبح روشن کی جانب اندھیرے بڑھ رہے ہیں