قبل اس کے۔ ۔ ۔
Poet: By: faiz, khi
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
…برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی یادیں بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے
چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
شوقین ہو جس کو پڑهنے کے تم
دسمبر کی وه اداس شاعری ہوں میں
جاتے ہوئے دسمبر کی کھڑکی سے
میں نے ہنستا ہوا جنوری دیکھا
اف یہ دسمبر کی آخری گھڑیاں
میرے پہلو میں کاش تم ہوتے
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ھمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
ان دنوں تعلق تھوڑا مضبوط رکھنا
سنا ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے
دسمبر جب بھی لوٹتا ہے میرے خاموش کمرے میں
میرے بستر پر بکھری کتا بیں بھیگ جاتی ہیں
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
جم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں
جو ہمیں بھول ہی گیا تھا اسے
یاد آئے ہیں ہم دسمبر میں
سارے شکوے گلے بھلا کے اب
لوٹ آ اے صنم دسمبر میں
کس کا غم کھائے جا رہا ہے تمہیں
آنکھ کیوں ہے یہ نم دسمبر میں
یاد آتا ہے وہ بچھڑنا جب
خوب روئے تھے ہم دسمبر میں
وہی پل ہے وہی ہے شام حزیں
آج پھر بچھڑے ہم دسمبر میں
بس یہی اک تمنا ہے اندرؔ
کاش مل جائیں ہم دسمبر میں







