جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے
میں نے نظروں کی طرح سر بھی جھکا رکھا ہے
برتنوں آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو
میں نے دھو دھو کے تمہیں کتنا سجا رکھا ہے
پہلے بیلن نے بنایا میرے سر پہ گومڑ
اور چمٹے نے میرا گال سجا رکھا ہے
سارے کپڑے تو جلا ڈالے میری بیگم نے
زیب تن کرنے کو بنیان پھٹا رکھا ہے
اے کنوارو یونہی آباد رہو شاد رہو
ہم کو بیگم نے تو سولی پہ چڑھا رکھا ہے
وہی دنیا میں مقدر کا سکندر ٹھرا
جس نے خود کو یہاں شادی سے بچا رکھا ہے
روز لیتی ہے تلاشی وہ پولیس کی مانند
پوچھتی ہے کہاں پیسوں کو چھپا رکھا ہے
پی جا اس مار کی تلخی کو ہنس کر اکبر
مار کھانے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے