طاقوں پہ سجایا جاتا ہوں
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
تعویز بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریر و ریشم کہ
اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے
خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو
کچھ بول سکھایا جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں
اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول قسم لینے کے لئے
تکرار کی نوبت اتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے
ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں
آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں
پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے
سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں
سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے
قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں
ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں کجھ کو بار نہیں
کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں
کجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں