جو خداپر نثار رہتا ہے
وہ صدا پُر بہار رہتا ہے
دل لگاتا ہے غیرِ حق سے جو
وہ سدا بے قرار رہتا ہے
چشمِ ساقی سے پینے والوں کو
مدتوں تک خمار رہتا ہے
دوستو صحنِ گلشنِ دل میں
قربِ حق سے نکھار رہتا ہے
یوں ہے فیصلؔ بھی اہلِ دل کے ساتھ
جیسے پھولوں میں خار رہتا ہے