قبلہ محترم پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین وارث قادری قلندری مدظلہ العالی
جب دل میں سما جائے، محبت شیخ وارث کی
تو جاری کیوں نہ ہولب پہ، مدحت شیخ وارث کی
سید ذات ہے ان کی،قلندر ہین طریقت میں
خدایا کس قدر عالی ہے، نسبت شیخ وارث کی
جو دیکھے ان کے چہرے کو،تہپھر ان کا ہی ہو جائے
ہے کتنی پیاری سورت اور، سیرت شیخ وارث کی
نظر آتا ہے جلوہء حق، رخِ پر نور مین ان کے
حجِ اکبر سے بھی افضل ، زیارت شیخ وارث کی
وجد ہو جاتا ہے طاری پھر اس پر کیف منظر میں
فرشتے جھومتے ہیںسن کے، قرات شیخ وارث کی
مسیحا ہو تو ایسا ہو، جو باطن کو شفا بھی دے
ہر اِک قریہ میں پھیلی ہے، یہ شہرت شیخ وارث کی
اسے گمراہیوں کا پھر، بھلا کھٹکا ہوئے کیونکر
میسر جس کو ہو جائے ، گر قربت شیخ وارث کی
مے و مینا میں جو گم تھے،انھیں مومن بنا ڈالا
ہیں اکمل آپ اور کامل، ولایت شیخ وارث کی
جو طالب حق کے ہوتے ہیں، انھیں پیچان لیتے ہیں
زمانے پر نہیں طاہر، حقیقت شیخ وارث کی
نگاہ۔ عشق میں ہر سو، وہی جلوہ نظر آئے
درِ باطن میں جاری ہے، کرامت شیخ وارث کی
زمانہ اب کہے گا کیا، نہیں اس بات کی پرواہ
دیوانی ہوں میں منگتی ہوں، ہاں حضرت شیخ وارث کی
سنا ہے شاہ خوش ہوںتو، خزانے بخش دیتے ہیں
مجھے بھی کاش حاصل ہو، عنایت شیخ وارث کی