جس کو چاہتا ہے ولی جسکو قلندر کردے
دل کے اس دشت کو یا رب تو سمندر کردے
جو بھی مانگیں انہیں دے دے تیری تعریف یہی
مجھ کو ہر بار مقدر کا سکندر کردے
اور پھر دے دے میرے ملک کو تاریخ نئی
میرے وطن کی فصیلوں کو چمن در کردے
بخش دے وصف نئے اپنی ثناء کی خاطر
درِ حبیب کے صدقے سے سخنور کردے
سُرورِ عشق سے غفلت نہ مجھے ہونے پائے
اسمِ عارف کو بھی عالم میں منور کردے