سجے گا سر پہ انھیں کے شفاعتوں کا تاج
انھیں مِلا ہے یقینا وکالتوں کا تاج
بس اک چٹائی کا بستر ، شکم پہ ہے پتھر
نبی نے پہنا ہے کیسی قناعتوں کا تاج
زبان ساری فصیحوں کی ہوگئی گونگی
سجائے آئے جو آقا بلاغتوں کا تاج
کلیم طور پہ عرشِ عُلا سے پار ہیں یہ
نبی کو زیبا ہے رب کی قرابتوں کا تاج
مہک مہک اُٹھے کوچے جدھر سے گذرے آپ
اُنھیں عطا ہوا ساری لطافتوں کا تاج
وہ صدق و عدل و سخا و وفا کے پیکر تھے
جنھیں بھی بخشا نبی نے خلافتوں کا تاج
رضاؔ کی نعتوں کو تُو رہِ نُما بنائے رکھ
انھیں مِلا ہے مُشاہدؔ فصاحتوں کا تاج