تو نے عیار لیڈروں کا سہارا ڈھونڈا
تو نے عیاش امیروں کی طرفداری کی
تو نے خود اپنی صداقت کا گلا گھونٹ دیا
تو نے ہر فرض کے احساس سے غداری کی
رشوتیں عام ہوئیں سود کے بادل برسے
گرم بازاری فحاشی و عریانی تھی
بادہ و جام کے چرچے رہے محفل محفل
ہر طرف ساز تھے نغموں کی فراوانی تھی
سرسراتے رہے ہر سمت سنہری آنچل
حسن کو کھینچ کے لایا گیا بازاروں میں
زور و زر رہ گئے معیار شرافت بن کر
سو گئی قوم گھنی زلف کی مہکاروں میں