قید غم حیات سے ہم کو چھڑا لیا
اچھا کیا کہ آپ نے اپنا بنا لیا
ہونے دیا نہ ہم نے اندھیرا شب فراق
بجھنے لگا چراغ تو دل کو جلا لیا
دنیا کے پاس ہے کوئی اس طنز کا جواب
دیوانہ اپنے حال پہ خود مسکرا لیا
کیا بات تھی کہ خلوت زاہد کو دیکھ کر
رند گناہ گار نے سر کو جھکا لیا
چپ ہوں تمہارا درد محبت لیے ہوئے
سب پوچھتے ہیں تم نے زمانے سے کیا لیا
ناقابل بیاں ہیں محبت کی لذتیں
کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل نے مزا لیا
روز ازل پڑی تھی ہزاروں ہی نعمتیں
ہم نے کسی کا درد محبت اٹھا لیا
بڑھنے لگی جو تلخئ غم ہائے زندگی
تھوڑا سا بادۂ غم جاناں ملا لیا
واقف نہیں گرفت تصور سے وہ شمیمؔ
جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ دامن چھڑا لیا