آج کل الیکشن کی بحث ہو یا گھروں میں اختلاف رائے ۔ہر جگہ سچے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ جھوٹ اس مہارت سے بولا جاتا ہے کہ سچے اور جھوٹے کا امتیاز مشکل ہے۔ میرا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے ۔یہ صرف ایک سوال ہے جو میرے ذہن میں اکثر آتا ہے۔
سنو! ہوجاؤ تیار کہ بولا ہے
آج سچ تم نے
تھے جو رفیق اب تک تمھارے
گھڑی میں بن گئے خون کے پیاسے
یہ کاٹ ڈالیں ٹکڑوں میں
اگر ان کا بس جو چلے
اس لئے تو کہتی ہوں
سنبھل کر تم ذرا چلو
ہے نیلام سچ کا
یہ بار بار ہوتا ہے
یہ ہوتا ہی آیا ہے
یہ الگ بات ہے کہ پہلی بار کوئی بول پایا ہے
پیارے تو سچ بول کر رسوا ہوا
تو اس پر حیراں کیوں ہوتا ہے؟
یہاں عقل کے پاسبانوں کی کس کو بھلا ضرورت ہے؟
اس ملت کو بس اب لٹیروں کی ہی عادت ہے
وہ کہتے ہیں "جو کھاتا ہے وہ لگاتا بھی تو ہے"
ارے نادانوں! کیا رشوت کو جائز قرار دینے کا ارادہ ہے؟
قرآن و حدیث کی رسی کو چھوڑ دیا ہے تم نے
جہالت کو گلے کا ہار کرلیا تم نے
وقت نازک آن پڑا ہے ملت پر
مگر یہاں تو گالیوں اور تہمتوں کے مقابلے در مقابلے ہیں
دامن پھیلایا ہے اب دعا کے لئے
مولا! پاسبان عطا کردے اب میرے وطن کو
سبز کردے میری ارض پاک کو
ہمیں محبت، پیار اور اخلاص سے مالامال کردے