لبوں پر ہر طرف اک واہ وا ہے
ہمارا گفتگو کا ڈھب جدا ہے
بھٹک سکتے نہیں منزل کی جانب
دلِ مضطر ہمارا رہنما ہے
نکلتی ہی نہیں طوفاں سے کشتی
خدا معلوم کیسا ناخدا ہے
جلا کر نیست کر دیتا تَو کیا تھا
ترے مرگھٹ میں تو بس دل جلا ہے
یوں چل کر آ بسے چوکھٹ پہ تیری
اطبا بول اٹھے، یہ چل بسا ہے
(واوین میں مصرع میر کا ہے)