لطیف کھوسہ! لطیف جذبے
نہ آزمانا، پرانے حربے
جو سارے ناکام ہو چکے ہیں
جو طشت از بام ہو چکے ہیں
کوئی سریلا سا ساز چھیڑو
پرانے شکوے گلے نبیڑو
یہ تان پہلی ہے خوبصورت
میاں سے ملکر بڑھاؤ قربت
دلوں میں باہم رہے نہ دوری
ہو گڈ گورنس جو ہے ضروری
کہ ہیں مسائل بہت عوامی
رہے گی باہم جو خوش کلامی
تو فائدہ ہوگا مفلسوں کو
ملے گا انصاف بے کسوں کو
وفاق کی صدر ہیں علامت
انہوں نے سونپی یہ خلافت
گر مشاورت کرتے میاں سے
تو ہاں کرتے وُہ دل جاں سے
خوشی ہے اب بھی وُہ خوش ہیں
انہوں نے شکوے نہیں کئے ہیں
کہا ہے خوش آمدید انہوں نے
ہے رکھی اچھی امید انہوں نے
لطیف جذبوں کا پاس رکھنا
بندھائے لوگوں کی آس رکھنا