لفظوں میں کہاں تھا یہ اجالا شہ والا
ہے نعت تیری میرا حوالہ شہ والا
ہے نور تیرا جلوہ فگن روز ازل سے
عالم میں کہاں تھا یہ اجالا شہ والا
تو ماہ مبیں نور خدا نور حقیقت
دنیا ے تیرے نور کا ہالہ شہ والا
اک ذرہ ناچیز ہوں میں،میری طلب کیا
عالم ہے تیرا چاہنے والا شہ والا
میں کیا ہوں میری فکر کی پرواز ہی کیا ہے
ہے ذکر تیرا ارفع و اعلی شہ والا
جوگن بنوں اور شہر مدینہ میں بھروں میں
بہنی ہو تیرے عش کی مالا شہ والا
ہو انس کی تسبیح پ جاری یہ وظیفہ
بڑھتی رھو ں ہردم شہ والا شہ والا
جب ڈولنے لگتی ہے ر زیست میں لبنی
یتا ہے تیرا اسم سنبھالا شہ والا