لوری
Poet: محمد قمر عباس By: Muhammad Qammar Abbas, Layyahمجھے لوری سنا دے نہ
مجھے پھر اک دفعہ اپنے سینے سے لگا لے نہ
کہ جیسے بچپن میں تو مجھ کو نہلایا کرتی سنوارا کرتی
لوری سنا کے سلایا کرتی
مگر میں جانتا ہوں کہ
بڑا اب ہو گیا ہوں میں
تجھے شکایت رہتی ہے
میری بدنام دوستی سے
میری بے نام خواہشوں سے
اور اکثر الجھ سی جاتی ہے
میری ان سب باتوں میں
تو کیوں مجھ سے کہتی ہے بڑا اب ہو گیا ہے تو
تجھے میری اب کیا ضرورت ہے
خور ہی نہا سکتا ہے تو
خود ہی بن سنور کر ارام سے جا سکتا ہے تو
مگر تو سن اے میری ماں
تیرا قمر تیرے لیے آج بھی وہی معصوم بچہ ہے
جسے نہلایا کرتی تھی جسے سنوارا کرتی تھی
جسے لوری سنا کے پیار سے سلایا کرتی تھی
اور یہ تجھ بن آج بھی بہت ادھورا ہے
More Mother Poetry
مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
اسلم






