مجھے لوری سنا دے نہ
مجھے پھر اک دفعہ اپنے سینے سے لگا لے نہ
کہ جیسے بچپن میں تو مجھ کو نہلایا کرتی سنوارا کرتی
لوری سنا کے سلایا کرتی
مگر میں جانتا ہوں کہ
بڑا اب ہو گیا ہوں میں
تجھے شکایت رہتی ہے
میری بدنام دوستی سے
میری بے نام خواہشوں سے
اور اکثر الجھ سی جاتی ہے
میری ان سب باتوں میں
تو کیوں مجھ سے کہتی ہے بڑا اب ہو گیا ہے تو
تجھے میری اب کیا ضرورت ہے
خور ہی نہا سکتا ہے تو
خود ہی بن سنور کر ارام سے جا سکتا ہے تو
مگر تو سن اے میری ماں
تیرا قمر تیرے لیے آج بھی وہی معصوم بچہ ہے
جسے نہلایا کرتی تھی جسے سنوارا کرتی تھی
جسے لوری سنا کے پیار سے سلایا کرتی تھی
اور یہ تجھ بن آج بھی بہت ادھورا ہے