لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی

Poet: پروین شاکر By: Anila, Islamabad
Lekin Badi Der Ho Chuki Thi

اس عمر کے بعد اس کو دیکھا

آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
ہونٹوں پہ مگر وہی تبسم!
چہرے پہ لکھی ہوئی اداسی
لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ

آواز میں گونجتی جدائی
بانہیں تھیں مگر وصال ساماں!
سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
تا دیر میں سوچتی رہی تھی

کس ابر گریز پا کی خاطر
میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
میں اس کے گلے لگی ہوئی تھی
وہ پونچھ رہا تھا مرے آنسو

لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی!

Rate it:
Views: 4100
28 Jun, 2021