نوحہ کراچی
وہ شہر کراچی جو محبت کا امیں تھا
وہ شہر کراچی جو کہ رشک خلد بریں تھا
ہوتا تھا اجالوں کا گماں جسکی شبوں پر
وہ شہر زمیں پر تھا کہ جنت کی زمیں تھا
تعلیم و ہنر صنعت و حرفت کا وہ مرکز
مہران کے ماتھے پہ جو جھومر سا حسیں تھا
عشاق نے شہروں کی دلہن کہہ کے پکارا
قدرت نے یہاں چاند ستاروں کو اتارا
قائد کا بھی اور قائد اعظم کا شہر بھی
عبدالله شاہ غازی سے قلندر کا شہر بھی
دشمن کی نظر لگ گئی پھر میرے شہر کو
غاصب اتر آئے فتح کرنے میرے گھر کو
حاسد ہی تھا جس کو کہ یہ رنگ روپ نہ بھایا
تاراج اسے کرنے وہ لشکر لئے آیا
نفرت کا زہر گھول دیا اسکی فضاء میں
دم جس سے محبت کا گیا گھٹ سا ہوا میں
بارود کی بو آئی گلابوں کے شہر سے
ماتم کی صدا گونجی قہقہوں کے نگر سے
ہر کوچہ و بازار میں غارت گری برپاء
گھر گھر میں میرے شہر کے ماتم ہوا برپاء
کھینچیں گئیں ماؤں کے سروں سے یہاں ردائیں
جھپٹے گئے آنچل میری بہنوں کی عبائیں
اٹھنے لگے گھر گھر سے جنازوں پہ جنازے
چہروں پہ جوانوں کے سجے خون کے غازے
کیوں میں ہی فقط مشق ستم بار ہوا ہوں
بے جرم و خطاء میں ہی گرفتار ہوا ہوں
ظلمت میں اجالوں کے جو مینار ہوئے ہیں
نظروں میں وہ فرعونوں کی غدار ہوئے ہیں