جن کے جاتے ہیں بگڑ اپنے
وہ دیکھتے ہی رہیں پھر سپنے
جن سے ملک کی ایسی تیسی
جمہور کی لگے پھر مالا جپنے
پہلے تھے ہم گل کی مانند
اب خار کی طرح لگیں کھٹکنے
آیا جو انکو کبھی خیال ہمارا
لگا پھر غصے سے وجود تپنے
نیند نہ پوری ہو جنکی ناصر
سوویں وہ جا کر دفتر اپنے