مالک ہے میرا تو ا و ر تو ہی سہارا
تھا ما ہے مجھے جب بھی تجھکوہے پکارا
دھرتی سسک رہی ہے زخموں کے بوجھ سے
اے مالک ارض وسما کچھ رحم خدارا
فرقوںمیں بٹ گئے ہیںانھیںدیںکی سمجھ دے
تھامیںسبھی وہ ڈور جس پہ مزہب ہےاتارا
ا ذ ہا ن میں جہاد کے مفہو م ا لگ ہیں
دھند چھٹ جائے غالب نہ ہو یہ کفر کی دھارا
انسان کو انساں کی حمیت کی قدر ہو
ہر بھائ ہو پہلے کی طرح بھائ کا پیارا
بھٹکے نہ کوئ پھر سے حق کی تلاش میں
ہر عمل کی بنیا د ہو قر آ ں کا اشار ہ
ٹوٹے گا زور باطل شکست ہو گی یقینی
گونجے گا پھر جگ میں پورے اسلام کا نعرہ
قر بانیاں شہیدوں کی رنگ لائیں گیں ضرور
اک دن سفینہ ا پنا لگ جا ئے گا کنا را
آمین