مانا کہ سعئ عشق کا انجام کار کیا
بے اختیار دل پہ مگر اختیار کیا
ہر ذرہ آشیانۂ دل ہے کہیں ٹھہر
صحرائے زندگی میں تلاش دیار کیا
شاید کہ شہر میں کوئی انسان آ گیا
دیکھو ہجوم سا ہے سر رہ گزار کیا
صدیوں کا زہر پی کے جو سوئے وہ کیا اٹھے
ڈستی ہے زندگی کی خلش بار بار کیا
ہر ذرہ لالہ زار ہے تازہ لہو کی طرح
برسا ہے اس دیار میں ابر بہار کیا
کیوں میری خاک دل کی طرف ملتفت ہیں لوگ
کچھ اب بھی رہ گیا ہے دلوں میں غبار کیا
فردا ہے انتظار میں صدیاں لیے ہوئے
ماضی کے ماہ و سال تمہارا شمار کیا
معمور ہے نشاط غم دل سے زندگی
تجھ کو شمیمؔ فکر غم روزگار کیا