ماں
Poet: شاکرہ نندنی، پُرتگال By: Shakira Nandini, Oportoمجھے یا دہے وہ دن جب میں نے
تجھے خود سے الگ دیکھا تھا
خود کو تجھ سے بڑا سمجھا تھا
اپنی عقل کل سے تیری محبت کو پرکھا تھا
اپنی گڑیوں کو تجھ سے
“تیری نہیں “ کہہ کر چھینا تھا
خود کھانے کی ضد میں تیرے
ہاتھوں کو جھٹکا تھا
تیراہاتھ پکڑنے کی بجائے
دیواروں کو سہارا سمجھا تھا
میرے ہاتھ میں کئی کتابیں تھیں
اور تجھے علم کی پڑی تھی
کتنی آسانی سے “تجھے کچھ نہیں آتا ماں “
یہ کہہ دیا تھا اور
تو نے بھی تو ہنس کر کہہ دیا تھا
مجھے بھی بتاؤ نا کیا لکھا ہے ان میں
وہ تیرا میرے ساتھ دن رات کا جاگنا
مجھے ہر آفت سے محفوظ رہنے کی دعا دینا
میری دوستوں کی لمبی فہرستیں
اور تیرا مسکرا دینا
وہ میری لغزشیں
وہ میری نافرمانیاں
وہ میری نادانیاں
سب کچھ اپنے آنچل میں چھپا کر
سب سے چھپا لینا
میری آنکھوں میں تیری یادیں
دعاؤں کی صورت نم ہیں
میری اچھی ماں ۔۔ سنو
میری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے
میری عقل اور سمجھ سے بھی بڑی
مجھے معاف کر دو ماں
بس ایک شکوہ ہے میراتجھ سے
میں تجھ جیسی ہوتی
یہ دعا کیوں نہیں کی تھی
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






