مجھے یا دہے وہ دن جب میں نے
تجھے خود سے الگ دیکھا تھا
خود کو تجھ سے بڑا سمجھا تھا
اپنی عقل کل سے تیری محبت کو پرکھا تھا
اپنی گڑیوں کو تجھ سے
“تیری نہیں “ کہہ کر چھینا تھا
خود کھانے کی ضد میں تیرے
ہاتھوں کو جھٹکا تھا
تیراہاتھ پکڑنے کی بجائے
دیواروں کو سہارا سمجھا تھا
میرے ہاتھ میں کئی کتابیں تھیں
اور تجھے علم کی پڑی تھی
کتنی آسانی سے “تجھے کچھ نہیں آتا ماں “
یہ کہہ دیا تھا اور
تو نے بھی تو ہنس کر کہہ دیا تھا
مجھے بھی بتاؤ نا کیا لکھا ہے ان میں
وہ تیرا میرے ساتھ دن رات کا جاگنا
مجھے ہر آفت سے محفوظ رہنے کی دعا دینا
میری دوستوں کی لمبی فہرستیں
اور تیرا مسکرا دینا
وہ میری لغزشیں
وہ میری نافرمانیاں
وہ میری نادانیاں
سب کچھ اپنے آنچل میں چھپا کر
سب سے چھپا لینا
میری آنکھوں میں تیری یادیں
دعاؤں کی صورت نم ہیں
میری اچھی ماں ۔۔ سنو
میری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے
میری عقل اور سمجھ سے بھی بڑی
مجھے معاف کر دو ماں
بس ایک شکوہ ہے میراتجھ سے
میں تجھ جیسی ہوتی
یہ دعا کیوں نہیں کی تھی