ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
Poet: Maa By: Rehan, Sialkotماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 ہے کون سی کمی جو مجھ کو ستا رہی ہے
 
 ہے کون سا وہ غم جو جی کو جلا رہا ہے
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 
 ٹوٹا ہے دل یہ میرا نم ہیں مری نگاہیں
 ہے کون سا وہ دکھ جو دل کو دکھا رہا ہے
 
 میں نا تو بتا را ہوں نا ہی چھپا رہا ہوں
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 
 ڈوبا ہوا ہوں کیوں میں ازل سے اندھیروں میں ماں
 ہے کون سا یہ شکوہ جو لب سے بتا را ہوں
 
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 رہتا ہوں غم کے گھر میں کس کی عنایتیں ہیں
 
 ہے کس کی زہ نوازی دھوکہ جو یہ کھا را ہوں
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 
 کس نے دیا ہے مجھ کو رسوایوں کا خزانہ
 یہ کس کہ ظلم وستم کو میں نبھا رہا ہوں
 
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
 ماں تیرا غم لیے دل میں جیئے جا رہا ہوں
 
 ماں اتنا بتا دے یہ غم کیوں اُٹھا رہا ہوں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 