ماں جب یاد آتی ہے
مجھے وہ بہت رولاتی ہے
کام سے جب میں گھر کو آتا ہوں
وہاں نہ ماں کو پاتا ہوں
جب وہ مجھے یاد آتی ہے
مجھے وہ بھت رولاتی ہے
یہ کوئی ٹائم ہے آنے کا یہ
یہ کوئی وقت ہے کھانے کا
گھر تو ٹائم سے آیا کر
کھانا وقت پہ کھایا کر
ایسی نہ کہیں سے آواز آتی ہے
پھر مجھے ماں یاد آتی ہے
جب تمہیں میں یاد کرتی ہوں
خود کو بے حال کرتی ہو ں
ماں سے جب بات ہوتی ہے
اکژ وہ اُداس ہی ہوتی ہے
جب میں اپنا حال سُناتا ہوں
پھر اُس کو خوش میں پاتا ہوں
مجھ سے اک سوال کرتی ہے
میرے بِنا اُداس تو نہیں ہوتم
آنکھیں برسنیں لگتی ہیں
نہ کوئی بات نکلتی ہے
میں سِسکیاں سمبھال لیتا ہوں
اور باتوں میں اُسےڈال لیتا ہوں
ماں تو آخر ں ماں ہوتی ہے
بچوں کی اپنے وہ جان ہوتی ہے
یا خدا میری ماں کو سدا سلامت رکھنا
اُسی سے میری نفیس پہچان ہوتی ہے