ماں وہ چھت ہے بِنا جس کے گھر نہیں ہوتا
باپ دیوار ہے جو چھت کا پِلر ہوتا ہے
کوئی تو ہے کہ جو ہر روز یاد کرتا ہے
وہ جس کی محفلوں میں میرا ذکر ہوتا ہے
اس نئے سال یہ سوچا ہے کہ خوش رہنا ہے
جس طرح کوئی اکیلا بے فکر ہوتا ہے
چھوڑ جائے گا تجھے جب کوئی چاہنے والا
میں بھی پوچھوں گا بتا درد کدھر ہوتا ہے
تیرے شہر کے پھولوں کی بھی مثال نہیں
جس طرح کوئی بہت مہنگا عطر ہوتا ہے
میرے حالات نہ پوچھو کہ میں آوارہ نصیب
ایسا ہوں جیسے کوئی در بدر ہوتا ہے
میں وہ دریائے محبت ہوں کہ جس کا سلمان
اک تیرے دل کے سمندر میں اُتر ہوتا ہے