اے ماں تیرے بنا سوُنا ھے یہ جہاں
توُ نہیں تو ہر سوغموں کی ہیں اندھیریاں
خدا نے کہا موسیؑ سے بن ماں دھیان کرنا زرا
نبی جی کا فرمان کہ باپ سے ذیادہ تیراحق ہے ماں
کہا جوھر نے، بن ماں کے گھر لگتا ہے قبرستان
میں کہتا ھوں، گھر کیا سارا جہاں لگتا ہے بے نماں
تیری گود سے، مدرسے سے، کالج سے بڑھی میری توانایاں
ہر سو، ہردم، میری ہی بہتری کے لیے رہی تیری قربانیاں
رہی عمر بھر سایہ فگن تیری بے لوث مہربانیاں
نہیں نعم البدل تیرا کہیں بھی اے مــــــــــــــاں
کچھ بھی تو اچھا نہیں لگتا بن تیرے اے میری ماں
کہ زندگانی کا ہر پہلو تھا تجھ سے باغ و بہاراں
مانند شجر کےھم پہ تیرا سایہ رہا اور سہتی رھی تکلیفوں کو
کہ ہر پل، ہر کڑی دھوپ میں ھمارے لیے رہی تو سائیباں
تیرا گلاب چہرا، جس میں پوشیدہ میری خوشیاں
ہر دم چمکتا تھا میرے لیے اے میری پیاری ماں
ساری رونقیں تیرے ہی دم سے تھیں اے ماں
تو جب رخصت ہوئ، تو رخصت ہوئ سب خوشیاں
دیر سے آنا کام سے جب بھی میرا
بھانپ لیتا تھا میں، تیری پشیما نـیاں
پھر دیکھ کر ہر طرح خیریت میری
کتنی ہوتی تھی تجھے شادمانیاں
میں نے پردیس کاٹا، تونے سہی یہ جدائیاں
مگر ہم سے اب نہیں سہی جاتی یہ جدائیاں
خدا نے بہشت بنا کے رکھ دی تیرے قدموں تلے
تو ہے جنت میری، تیرے پاوں تلے جنت ہے ماں
یاد کرتا ہوں تجھے ہر دم، اور روتا رہتا ھوں
نظام قدرت ہے موت بھی، کہ تو ملے گی اب کہاں
میرے اعمال میں تو کچھ بھی نہیں ہیں نیکیاں
تیری دعا سے امید ہے خدا کامیاب کریگا ہر امتحاں
تو نے سب کچھ کیا ہے ھمارے لیے
ھم کچھ بھی نہ کر پائے تمھارے لیے
جب کہ تو نے ہر دم چاہی ھماری ہی بھلا ئیاں
کیا فائدہ اب پچھتاوں کے لکھنے کا
کہ تو دیکھ نہ سکے گی یہ لکھایاں
اب مانگتے ہیں اپنے رب سے پھر معا فیاں
پر یہ معافیاں نہ کر سکیں گی کبھی تلافیاں
وہ رحیم معاف کر دے گا تیری دعا سے
پر ضمیر میرا نہیں کرتا یہ مہربانیاں
کہ لگا نہ سکے تیرے لیے ہم اپنی ساری کمایاں
تو بچاتی رہی سب کچھ اور بچا دی پھر یہ پونجیاں
ربی اغفر کہہ کہ بچاتا ہوں اپنی جان
کہ یہاں بھی پائ اپنی خود غرضیاں
غلطیوں کا پتلا ہے یہ تیرا وسیـــــؔــــم
تو درگزر کر دیتی تھی جس کی نالائقیاں
الفاظ نہیں ملتے کہ بیاں کروں تیری خوبیاں
کوئ تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں اے ماں