نازوں سے گود میں کھلا کر
اپنا ہر غم ہنسی میں دبا کر
آنکھوں میں بے پناہ شفقت
دل میں چاہت کا طوفان سما کر
اولاد کے لئے کرتی ہے د عائیں
دن رات جھولی پھیلا پھیلا کر
ہے کتنا انمول رشتہ ماں کا اپنے تن کی پرچھائی سے
یہ تو اک بیٹی جانے خود ماں بن کر
ہو جائے کبھی جو دیر سوہر اس کی آنکھ کے تاروں کو
آنکھیں بن کر لگ جائے اس کا پورا تن دروازے پر
فری کی نمناک آنکھیں اب اکژ پوچھا کرتی ہیں، یوتا یے جب اتنا پیار
پھر کیسے جاتی یے ماں ہمیشہ کے لئے تڑپتا چھوڑ کر
میری والدہ سترہ دسمبر ٢٠٠٩ کو ہم سے جدا ہو گئیں۔۔۔۔۔یہ غم کبھی بھی کم نہیں ہوتا۔۔۔۔آپ تمام پڑھنے والوں سے گزارش ہے ۔۔۔۔میری پیاری ماں کو اپنی دعا میں ضرور یاد رکھیں۔۔۔۔۔شکریہ