ہم مفادات وطن پیش نظر رکھتے ہیں
جھوٹے وعدوں سے بہل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
شعلہ خو ہیں ہمیں آندھی سے جلاء ملتی ہے
شمع بن کر جو پگھل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
سازشوں سے نہیں گھبرائے کسی موڑ پہ ہم
جو تشدد سے سہل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
ہم حسینی ہیں علی شیر خدا کے پیرو
فکر ظلمت میں جو ڈھل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
بے ضمیروں کو میری صف میں ڈھونڈو لوگوں
چند ٹکوں پر جو مچل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
نار تمرود کو گلزار کریں گے پھر سے
ظلم کی آگ میں جل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
فکر الطاف نے بخشا ہے دماغوں کو یقیں
موت کے ڈر سے دھل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
قہر و ظلمت کے خداؤں کی تباہی کے بغیر
راستہ چھوڑ نکل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
وقت نے جرات و ہمت کو کیا ہے پختہ
تیرے ہاتھوں سے جو ہل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
ہم نمک سے نہیں فولاد کے زروں سے بنے
چند قطروں سے جو گُھل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
ہم ہیں مہران کے ماتھے کا نشان عظمت
تیری سازش سے جو دُھل جائیں وہ ہم لوگ نہیں
ہم بغاوت کے نظرئیے کے مبلغ ہیں اشہر
ظلم سے ڈر کے بدل جائیں وہ ہم لوگ نہیں