مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہيں
يہي نماز ادا صبح و شام کرتے ہيں
خصوصيت نہيں کچھ اس ميں اے کليم تري
شجر حجر بھي خدا سے کلام کرتے ہيں
نيا جہاں کوئي اے شمع ڈھونڈيے کہ يہاں
ستم کش تپش ناتمام کرتے ہيں
بھلي ہے ہم نفسو اس چمن ميں خاموشي
کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہيں
غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کي
حلال چيز کو گويا حرام کرتے ہيں
بھلا نبھے گي تري ہم سے کيونکر اے واعظ!
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہيں
الہي سحر ہے پيران خرقہ پوش ميں کيا!
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہيں
ميں ان کي محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
جو گھر کو پھونک کے دنيا ميں نام کرتے ہيں
ہرے رہو وطن مازني کے ميدانو!
جہاز پر سے تمھيں ہم سلام کرتے ہيں
جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں