مجبور ہیں پر اتنے تو مجبور بھی نہیں
جب ان کو بھول جائیں وہ دن دور بھی نہیں
کچھ تو لکھی ہیں اپنے مقدر میں گردشیں
کچھ پیار میں نباہ کا دستور بھی نہیں
میں نے سنا ہے ترک تعلق کے بعد سے
افسردہ گر نہیں تو وہ مسرور بھی نہیں
دیکھی ہیں میں نے ایسی بھی دکھیا سہاگنیں
بیاہی ہیں اور مانگ میں سیندور بھی نہیں
یہ جس کا زہر روح میں میری اتر گیا
ہلکا سا گھاؤ تھا کوئی ناسور بھی نہیں
اس کی نظر سے کیوں کبھی گزرے مری غزل
ایسی تو خاص میں کوئی مشہور بھی نہیں