مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بےکس ترا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار ترا کام ہے اچھا کرنا
تُو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے، وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے، جس رنگ میں چاہا مجھےرُسوا کرنا
یہ ترا کام ہے اے آمنہ کے دُرِّ یتیم
ساری امّت کی شفاعت، تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا
یہ تمنائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر
فیصلہ میرا سپردِ شہہِ بطحا کرنا
آل و اصحاب کی سنت ، مرا معیارِ وفا
تری چاہت کے عوض ، جان کا سودا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر ترا چرچا کرنا
یہ صراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرنا ،تجھے اونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایا کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو وہ اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خوش اطوار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طوافِ رخِ زیبا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیرؔ اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں، خدا کا کرنا