مجھ کو میرا حوصلہ بھی آزمانے دیجئے
یاد آتا ہے بہت ، اس کو بھلانے دیجئے
دکھ نہیں گر اس عمل سے آپ کو خوشیاں ملیں
ٹوٹتا ہے دل جو میرا ، ٹوٹ جانے دیجئے
یہ چمن میں چار سو اٹھکیلیاں کرتی ہوا
جس قدر بھی گل کھلاتی ہے ، کھلانے دیجئے
لمحہ لمحہ زندگی میں ساتھ ہوگا وہ مرے
سرخ پھولوں سے مجھے رستہ سجانے دیجئے
یاد کا کیا ہے کسی دن دے گی اس کو دستکیں
وہ مجھے بھولا ہوا ہے ، بھول جانے دیجئے
کون سی دنیا ہے وہ ، ہم پھر سے مل پائیں جہاں
کچھ حقیقت کھولیے اور کچھ فسانے دیجئے
ایک ہی تو شخص میری زندگی ہے اے صدف
ساری دنیا چھوڑ کر اس کو منانے دیجئے