مجھے ارمان دولت کا نہ شہرت کا نہ عشرت کا
قبول اے کاش کر لے وہ بس اک سجدہ عبادت کا
مرے آقا کا در ہے اس پہ قرباں جان و دل کر دوں
یہی شان غلامی ہے تقاضہ ہے محبت کا
خدارا اے محمد ناخدا کا بھرم رکھنا
کہ طوفانوں کی زد میں ہے سفینہ تیری امت کا
میرے الله مجھ پر بھی کرم کی اک نظر کر دے
غلام مصطفیٰ ہوں مستحق ہوں تیری رحمت کا
خطائیں درگزر کر دے تو اس کی مغفرت کر دے
بہت خمیازہ بھگتا ہے حسن نے اپنی غفلت کا