مجھے بجھا دے مرا دور مختصر کر دے
مگر دیئے کی طرح مجھ کو معتبر کر دے
بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کی عمر ہی کتنی
میں تیری شام ہوں آ جا مری سحر کر دے
جدائیوں کی یہ راتیں تو کاٹنی ہوں گی
کہانیوں کو کوئی کیسے مختصر کر دے
ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسا بچہ کتابیں ادھر ادھر کر دے
وسیمؔ کس نے کہا تھا کہ یوں غزل کہہ کر
یہ پھول جیسی زمیں آنسوؤں سے تر کر دے