مجھے تم سے شکایت ہے
Poet: Seema Ghazal By: ghalib, khi
مجھے تم سے شکایت ہے
کہ تم نے عمر بھر مجھ کو
خبر یہ بھی نہ ہونے دی
تمہیں مجھ سے محبت تھی
More Seema Ghazal Poetry
ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو ہمارے سانحے ہم کو سنا رہے کیوں ہو
تم اتنا بوجھ بھی دل پر اٹھا رہے کیوں ہو
تمہاری چھاؤں میں بیٹھے اٹھا دیا تم نے
پھر اب پکار کے واپس بلا رہے کیوں ہو
جو بات سب سے چھپائی تھی عمر بھر ہم نے
وہ بات سارے جہاں کو بتا رہے کیوں ہو
جب ایک پل بھی گزرنا محال ہوتا ہے
پھر اتنی دیر بھی ہم سے جدا رہے کیوں ہو
تمہاری آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
تم اتنی زور سے ہنس کے چھپا رہے کیوں ہو
جو کر لیا ہے جدائی کا فیصلہ تم نے
تو یہ فضول بہانے بنا رہے کیوں ہو
نہ جانے کس لیے آنکھوں میں آ گئے آنسو
ذرا سی بات کو اتنا بڑھا رہے کیوں ہو
تم اتنا بوجھ بھی دل پر اٹھا رہے کیوں ہو
تمہاری چھاؤں میں بیٹھے اٹھا دیا تم نے
پھر اب پکار کے واپس بلا رہے کیوں ہو
جو بات سب سے چھپائی تھی عمر بھر ہم نے
وہ بات سارے جہاں کو بتا رہے کیوں ہو
جب ایک پل بھی گزرنا محال ہوتا ہے
پھر اتنی دیر بھی ہم سے جدا رہے کیوں ہو
تمہاری آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
تم اتنی زور سے ہنس کے چھپا رہے کیوں ہو
جو کر لیا ہے جدائی کا فیصلہ تم نے
تو یہ فضول بہانے بنا رہے کیوں ہو
نہ جانے کس لیے آنکھوں میں آ گئے آنسو
ذرا سی بات کو اتنا بڑھا رہے کیوں ہو
uzair
بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس بارش تھی اور ابر تھا دریا تھا اور بس
جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس
آیا ہی تھا خیال کہ پھر دھوپ ڈھل گئی
بادل تمہاری یاد کا برسا تھا اور بس
ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے
ہاں اک دیا دریچے میں رکھا تھا اور بس
تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ
میں تھی اداس دھوپ تھی رستہ تھا اور بس
یوں تو پڑے رہے مرے پیروں میں ماہ و سال
مٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا اور بس
جاگی تو میرے سامنے صحرا تھا اور بس
آیا ہی تھا خیال کہ پھر دھوپ ڈھل گئی
بادل تمہاری یاد کا برسا تھا اور بس
ایسا بھی انتظار نہیں تھا کہ مر گئے
ہاں اک دیا دریچے میں رکھا تھا اور بس
تم تھے نہ کوئی اور تھا آہٹ نہ کوئی چاپ
میں تھی اداس دھوپ تھی رستہ تھا اور بس
یوں تو پڑے رہے مرے پیروں میں ماہ و سال
مٹھی میں میری ایک ہی لمحہ تھا اور بس
zainab
اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں اک قیامت کا گھاؤ آنکھیں تھیں
عشق طوفاں میں ناؤ آنکھیں تھیں
راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں
ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں
جن کو اس نے چراغ سمجھا تھا
اس کو یہ تو بتاؤ آنکھیں تھیں
دل میں اترا وہ دیر سے لیکن
میرا پہلا لگاؤ آنکھیں تھیں
قطرہ قطرہ جو بہہ گئیں کل شب
آؤ تم دیکھ جاؤ آنکھیں تھیں
عشق طوفاں میں ناؤ آنکھیں تھیں
راستہ دل تلک تو جاتا تھا
اس کا پہلا پڑاؤ آنکھیں تھیں
ایک تہذیب تھا بدن اس کا
اس پہ اک رکھ رکھاؤ آنکھیں تھیں
جن کو اس نے چراغ سمجھا تھا
اس کو یہ تو بتاؤ آنکھیں تھیں
دل میں اترا وہ دیر سے لیکن
میرا پہلا لگاؤ آنکھیں تھیں
قطرہ قطرہ جو بہہ گئیں کل شب
آؤ تم دیکھ جاؤ آنکھیں تھیں
adnan






